جبری گمشدگیوں پر احتساب کے عالمی طریقہ کار کی تجویز
جبری گمشدگی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کہا ہے کہ عالمی فوجداری دائرۂ اختیار اس جرم کے ذمہ داروں کا احتساب کرنے اور متاثرین پر مرکوز اقدامات کو یقینی بنانے کا موثر ذریعہ ہے جس کا جامع طور سے اطلاق ہونا چاہیے۔
ورکنگ گروپ کی سربراہ گیبریلا سٹرونی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی تیسری کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی اور دیگر بین الاقوامی دائرہ ہائے اختیار کا اطلاق کرتے ہوئے جبری گمشدگی کے واقعات میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں جنہیں سزا نہ ملنے کا رجحان اب بھی عام ہے۔ لہٰذا رکن ممالک کا احتساب کے لیے کوششوں کو بڑھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ عالمی دائرہ اختیار کسی بھی ملک کو بین الاقوامی جرائم جیسا کہ جبری گمشدگی پر قانونی کارروائی کا حق دیتا ہے چاہے جرم بیرون ملک ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ مقدمہ یا حوالگی کے اصول کے تحت ریاستوں کو اپنے دائرہ اختیار میں موجود ملزموں کے خلاف یا تو قانونی کارروائی کرنی چاہیے یا انہیں متعلقہ ممالک کے حوالے کیا جانا چاہیے۔
3 ضروری اقدامات
ورکنگ گروپ کی تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ کئی ممالک نے اب تک جبری گمشدگی کو ایک الگ فوجداری جرم کے طور پر قانون کا حصہ نہیں بنایا۔ جہاں عالمی دائرہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے وہاں بھی اس کے اطلاق میں استثنیٰ جیسی قانونی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔
گیبریلا سٹرونی نے بین الاقوامی دائرہ اختیار سے موثر طور پر کام لینے کے لیے تین ضروری اقدامات پر زور دیا ہے۔ ان میں بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے کے لیے خصوصی اداروں کا قیام، جامع تحقیقات اور سیاق و سباق پر مبنی شواہد کا حصول اور مضبوط بین الاقوامی تعاون بشمول قانونی معاونت اور علاقائی ہم آہنگی شامل ہیں۔
متاثرین پر مرکوز اقدامات
ورکنگ گروپ نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ اس معاملے میں متاثرین، گواہوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کی محفوظ، باوقار اور موثر شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ گروپ نے اس مقصد کے لیے قانون سازی میں اصلاحات اور مالیاتی، تکنیکی اور انسانی وسائل کی فراہمی پر زور دیا ہے۔
تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ عالمی دائرۂ اختیار جبری گمشدگیوں کے مرتکب عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا موثر ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے مکمل نفاذ کے لیے رکن ممالک کی سنجیدہ شمولیت اور ٹھوس عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ تحقیق اس سمت میں واضح رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔