انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پولیو کے شکار مسعود خان کی بیماریوں کے خلاف ویکسین سے جنگ

اوائل عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث مسعود کا بچپن معذوری میں گزارا۔
© WHO
اوائل عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث مسعود کا بچپن معذوری میں گزارا۔

پولیو کے شکار مسعود خان کی بیماریوں کے خلاف ویکسین سے جنگ

صحت

'میں پولیو کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتا تھا۔ سکول میں جب دوسرے بچے کھیلتے تو میں انہیں دیکھ کر اداس اور مایوس ہو جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے ویکسینیٹر کا کورس کیا تاکہ دوسرے بچوں کو پولیو جیسی مفلوج کر دینے والی بیماری سے بچا سکوں۔'

مسعود صوبہ خیبرپختونخوا میں پشاور کے علاقے گڑھی عطا محمد کی سول ڈسپنسری میں گزشتہ دس برس سے ویکسینیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں وہ بچوں کو معمول کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے ساتھ پولیو کے قطرے بھی پلاتے ہیں۔

اوائل عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث ان کا بچپن معذوری میں گزارا۔ اس بیماری کے نتیجے میں تکلیف دہ تجربات نے انہیں دوسرے بچوں کو پولیو سے بچانے کا عہد کرنے کی تحریک دی۔ وہ حفاظتی ٹیکے لگانے والے ان 14 ہزار سے زیادہ طبی کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے تحت معاونت فراہم کر رہا ہے۔

مسعود سول ڈسپنسری میں ہر سال تقریباً تین ہزار بچوں کو ویکسین دیتے ہیں۔
© WHO

عزیز اور دوست

ویکسینیٹر کے طور پر مسعود کا کام پشاور میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کا اہم جزو ہے۔ پشاور وہ علاقہ ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے اور یہاں سے یہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ مسعود کا کردار ان چار لاکھ سے زیادہ رضاکار طبی کارکنوں کے کام کو تقویت دیتا ہے جو سال میں کئی مرتبہ گھر گھر جا کر تقریباً ساڑھے چار کروڑ بچوں کو فالج کا باعث بننے والے پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔

مسعود کے اہلخانہ اور دوست ہمیشہ ان کا مضبوط سہارا رہے ہیں۔ ان کی مدد سے وہ پشاور کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے اپنی روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ چونکہ وہ طویل فاصلہ پیدل طے نہیں کر سکتے اس لیے وہ ایک مقررہ 'ای پی آئی' مرکز پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوست روزانہ موٹر سائیکل پر انہیں ڈسپنسری لے جاتا ہے اور شام کو واپس گھر چھوڑ دیتا ہے۔

مسعود ان لوگوں کے شکرگزار ہیں جو اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے کے لیے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کے بھی ممنون ہوں جنہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

ویکسینیشن ٹیموں کو لاحق سلامتی کے خطرات پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
Photo Courtesy: Pakistan Polio Eradication programme

ویکسین کی اہمیت مسلمہ

مسعود سول ڈسپنسری میں ہر سال تقریباً تین ہزار بچوں کو ویکسین دیتے ہیں۔ مگر ان کا کردار صرف ٹیکہ لگانے تک محدود نہیں۔ وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے ایک مؤثر حمایتی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ جب والدین اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ یا انکار کا اظہار کرتے ہیں تو مسعود ایک طبی کارکن کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں جو خود ایک قابل تدارک مگر عمر بھر کی بیماری جھیل رہا ہے۔

وہ والدین کو تلقین کرتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کو لازمی طور پر اور بروقت ویکسین لگوانی چاہئیں تاکہ وہ پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جنہیں ویکسین کے ذریعے تو روکا جا سکتا ہے مگر ان کا کوئی اور علاج نہیں ہے اور یہ عمر بھر کی معذوری یا موت کا باعث بن سکتی ہیں۔

مسعود والدین کو اپنی مثال دیتا ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انہیں دیکھیں اور ان کا درد محسوس کریں۔ اگر وہ اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائیں گے تو ان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہو سکتا ہے جو ان کی زندگی کو ادھورا کر دے گا۔

مسعود کی کہانی پہلے یہاں انگلش میں شائع ہوئی۔