انسانی کہانیاں عالمی تناظر
امددای امور کے لیے اقوام متحدہ ادارے اوچا کے سربراہ ٹام فلیچر دورہ غزہ کے دوران ایک فلسطینی بچے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

امدادی کٹوتیاں: مالی وسائل کے اب نئے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت، فلیچر

© UNOCHA/Olga Cherevko
امددای امور کے لیے اقوام متحدہ ادارے اوچا کے سربراہ ٹام فلیچر دورہ غزہ کے دوران ایک فلسطینی بچے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

امدادی کٹوتیاں: مالی وسائل کے اب نئے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت، فلیچر

انٹرویو: کونر لینن
انسانی امداد

اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امدادی امور ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ عالمگیر امدادی نظام کو مزید موثر، مساوی اور پائیدار بنانے کی ضرورت ہے اور امریکہ سمیت بڑے عطیہ دہندگان کی جانب سے امداد کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر کمی کے بعد مالی وسائل کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔

ٹام فلیچر نے یہ بات افغانستان سے یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہے جہاں انہوں نے شہریوں پر امدادی وسائل کی قلت کے بدترین اثرات کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ اس دورے میں انہوں نے ملک کے طالبان حکام سے امدادی کوششوں میں خواتین کی شرکت کی اہمیت اور تعلیم کے لیے ان کے حق پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات چیت کے نتیجے میں بامعنی پیش رفت کا امکان ہے۔

یو این نیوز نے ان سے افغانستان کے لیے عالمی امداد میں کمی کے لوگوں پر اثرات اور امدادی سرگرمیوں میں خواتین کے کردار سمیت متعدد موضوعات پر بات کی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

یو این نیوز: آپ نے کہا ہے کہ امدادی وسائل میں کمی کرنے والے پالیسی سازوں کو افغانستان میں آ کر ایسے فیصلوں کے اثرات کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ ایسے اقدامات کے نتیجے میں لاکھوں لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ کیا آپ ان پالیسی سازوں سے نجی گفتگو میں بھی اسی طرح کھل کر بات کرتے ہیں؟

ٹام فلیچر: جی ہاں، میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ امدادی وسائل کی قلت کے اثرات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ تاہم، اس کے بعض نتائج ابھی سے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 400 کلینک بند ہو گئے ہیں۔ میں نے کچھ ہی دیر قبل غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے لوگوں سے ملاقات کی ہے جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے عملے کی تعداد میں نصف کمی کر رہے ہیں۔ بحرانی حالات میں مقامی 'این جی اوز' کو تحفظ دینا ضروری ہے جبکہ یہی ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

ہم پالیسی سازوں سے یہی بات قدرے نرم انداز میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بالآخر یہی ہو گا کہ امداد بند ہو جانے سے لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر ’اوچا‘ کے سربراہ ٹام فلیچر افغانستان کے شہر قندوز میں لوگوں سے مل رہے ہیں۔
© UNOCHA
امدادی سرگرمیوں کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر ’اوچا‘ کے سربراہ ٹام فلیچر افغانستان کے شہر قندوز میں لوگوں سے مل رہے ہیں۔

یو این نیوز: آپ کی اس بات پر سیاست دانوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟

ٹام فلیچر: میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں دو طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بعض سیاست دان نہ چاہتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں اور اس وجہ سے ایسے مشکل فیصلوں پر مجبور ہیں کہ ان کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں اور ان پر ٹیکس دہندگان کی جانب سے تبدیلی کے لیے دباؤ ہے۔ وہ امدادی کوششوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انہیں امداد روکنے کے فیصلوں پر افسوس ہے۔

دوسری جانب، ایسے سیاست دان بھی ہیں جو عوامی سطح پر اپنی باتوں میں ان فیصلوں پر فخر کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے امداد بند کر کے بہت اہم کام کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں میں اس حاملہ ماں کے سامنے بٹھانا چاہوں گا جس نے اس وجہ سے اپنا بچہ کھو دیا کہ اسے زچگی کے لیے ہسپتال کی جانب سائیکل پر تین گھنٹے کا سفر کرنا پڑا۔

عالمی سطح پر قائدانہ کردار کا اظہار دوسرے ممالک کو مسائل کے بنیادی اسباب سے نمٹنے میں مدد دینے سے ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کون سے لوگوں کو کون سی بات قائل کرے گی۔ اسی لیے ہمیں خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا اور اپنی بات تخلیقی انداز میں کرنا ہوتی ہے۔

امدادی برادری نے دنیا کے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا اور لاکھوں لوگوں کی جان بچائی ہے اور اسی لیے ہمیں اپنے کام کا مضبوطی سے دفاع کرنا ہو گا۔

یو این نیوز: آپ ایک مشکل وقت میں اقوام متحدہ کے امدادی شعبے کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں اور آپ نے انتہائی کمزور اور غیرمحفوظ لوگوں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کی صلاحیت کو یقینی بنانا ہے۔ فروری میں آپ نے اپنے شعبے میں 20 فیصد نوکریاں ختم کی تھیں۔ کیا اس طرح آپ کا کام مزید مشکل نہیں ہو جائے گا؟

ٹام فلیچر: امدادی وسائل میں کٹوتیوں کے حوالے سے واقعتاً بہت ظالمانہ فیصلے ہوئے ہیں اور امدادی شعبہ تقریباً ایک تہائی حد تک سکڑ جائے گا۔ جو وسائل روکے گئے ہیں وہ جلد واپس نہیں آئیں گے اور مستقبل میں مزید کٹوتیاں ہو سکتی ہیں۔

ہم نئے شراکت دار تلاش کریں گے اور جو متذبذب ہیں انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ نجی شعبے سے مدد لیں اور لوگوں کو یکجہتی کے لیے قائل کریں۔ فی الوقت ہمیں اپنے موجودہ وسائل پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔

جن ممالک نے امداد میں کمی کی ہے ان سے ہماری بات چیت جاری ہے اور میں اپنی کوششیں ترک نہیں کر رہا۔ میں امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کی اس بات کو مثبت لیتا ہوں جو انہوں نے زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے انسانی امداد کی ضرورت کے حوالے سے کہی ہے۔ میں اس بارے میں ان سے بات کر کے یہ جاننا چاہوں گا کہ دنیا بھر میں زندگیوں کو تحفظ دینے میں امریکہ کے کردار کے حوالے سے ان کی سوچ کیا ہے۔

ٹام فلیچر یوکرین کے علاقے ژیپوریژیا میں میزائل حملے سے تباہ ہونے والے ایک طبی مرکز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
© UNOCHA/Yurii Veres
ٹام فلیچر یوکرین کے علاقے ژیپوریژیا میں میزائل حملے سے تباہ ہونے والے ایک طبی مرکز کا جائزہ لے رہے ہیں۔

یو این نیوز: موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے آیا امداد کی نوعیت اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے بارے میں یکسر نئے انداز میں سوچنا ہو گا؟

ٹام فلیچر: جی ہاں، ہم تبدیلیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اسے محفوظ رکھنا ہے اور ہم نے اب تک جو کچھ کیا ہے اس پر ہمارا اعتماد ہے۔ لیکن اب ہم امدادی امور کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں۔اس ضمن میں سب سے پہلے ہم اپنے حجم کو کم کر رہے ہیں اور یہ کام اس انداز میں کرنا چاہتے ہیں جس سے زندگیوں کو تحفظ دینے کے ہمارے کام کو ہر ممکن حد تک کم سے کم نقصان ہو۔

علاوہ ازیں، ہم خود کو مختصر، موثر اور نتیجہ خیز بنا رہے ہیں۔ میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن امدادی امور سے متعلق تمام شعبوں کی کارکردگی کو موثر بنانے کی مہم شروع کی تھی۔ ہمارے شعبے کو مربوط کرنے والے ادارے 'آئی اے ایس سی' نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا اور یہ یقینی بنایا گیا کہ ہم مقامی سطح پر مزید خدمات مہیا کریں اور ان لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی کارروائیاں انجام دیں جنہیں ہم اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں۔

یو این نیوز: کیا بہت سے رکن ممالک تاحال بین الاقوامی امداد کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں؟

ٹام فلیچر: یقیناً، بہت سے عطیہ دہندگان خود کو درپیش مالی وسائل کے بحران کے باوجود مدد مہیا کر رہے ہیں۔ ہمیں نئے عطیہ دہندگان کی مدد بھی میسر آئی ہے جبکہ نئے بھی سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے خلیجی ممالک کا دورہ کیا اور پچھلے ہفتے چین گیا تھا۔ ان ممالک کے ساتھ ہمارا اشتراک مضبوط ہو رہا ہے۔

ہمارے پاس نجی شعبے سے مدد لینے کے حوالے سے مزید اختراعی تصورات ہیں اور میں اس حوالے سے حکومتوں اور رکن ممالک سے ہٹ کر دیگر عطیہ دہندگان تک رسائی کے لیے افراد کے کردار پر بھی بھرپور یقین رکھتا ہوں۔

ٹام فلیچر سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
ٹام فلیچر سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

یو این نیوز: اب افغانستان کی جانب واپس آتے ہیں جہاں طالبان حکمرانوں نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم و روزگار کے مواقع تک رسائی سختی سے محدود کر دی ہے۔ کیا آپ اس حوالے سے حکام کے ساتھ کوئی تعمیری بات چیت کر پائے ہیں؟

ٹام فلیچر: جی ہاں، ہم نے ان سے تعمیری بات چیت کی ہے۔ یہاں ہمارے سامنے دو بنیادی مسائل ہیں۔ پہلا امدادی کام میں خواتین کے کردار کا معاملہ ہے۔ ہمارے لیے ان کے بغیر مدد فراہم کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ ہماری بہت کارآمد ساتھی ہیں اور ہم ان پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں۔ دوسرا اور وسیع مسئلہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران لاکھوں لڑکیوں سے ان کا یہ حق چھین لیا گیا ہے۔

یہ مشکل بات چیت ہے لیکن میں سفارت کار رہا ہوں جو گفت و شنید، احترام، اعتماد اور دوسروں کو سننے پر یقین رکھتا ہے۔ سفارت کار کو علم ہوتا ہے کہ ہماری ثقافتیں، روایات، ورثے اور اعتقادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

یو این نیوز: عہدہ سنبھالنے سے پہلے کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا ہدف تھا جسے آپ اپنے کام کی مدت مکمل کرنے سے پہلے حاصل کرنے کے خواہش مند ہوں؟

ٹام فلیچر: امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے سربراہوں کی اوسط مدت تین سال رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام جلد تھکا دینے والا ہے۔ ادارے کے سربراہ کا بہت سا وقت سفر میں گزرتا ہے اور اسے دنیا میں بدترین بحرانوں سے نمٹںا ہوتا ہے۔

اسی لیے، میرا پہلا مقصد یہ تھا کہ مجھے ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ عرصہ یہ کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ جب نئے لوگ آتے ہیں تو انہیں کام سیکھنے اور پھر اسے آگے بڑھانے میں وقت لگ جاتا ہے جس سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

میں امدادی شعبے میں اصلاحات کا مقصد لے کر آیا تھا اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر نے استعداد، ترجیحات اور کٹوتیوں کی باتیں شروع نہیں کی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ کام کہیں زیادہ موثر طریقے سے اور مدد وصول کرنے والوں کے ساتھ رہ کر انجام دے سکتے ہیں اور اسی لیے میں ایسا کرنے کے لیے پرعزم تھا۔ میرا تیسرا اور بڑا مقصد لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ دینا ہے اور یہی ہمارا بنیادی کام ہے۔